خودمختاری کی روشن مثال۔۔۔سرگودھا کی ایک خاتون نے منفی سماجی رویوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اورخود،کامیابی کی ایک داستان بن گئیں۔

یونیورسٹی روڈ،سرگودھا کا ایسا علاقہ ہے جوکمرشل سرگرمیوں کی وجہ سے خاص شہرت رکھتاہے۔کیونکہ یہ شہرکی ایسی لوکیشن ہے جہاں کسی بھی مقام کاروبار کے نمایاں فروغ کے لئے بڑی سی بڑی سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔شہر بھر کے تمام علاقوں سے آسان رسائی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ علاقہ گاڑیوں کی ورکشاپس،فرنیچر شورومز اورگروسری شاپنگ کے لئے ایک مرکز کی حیثیت رکھتاہے۔

مختلف کامیاب بزنسز کے ساتھ ساتھ اِس مصروف شاہر اہ پرقائم ایک عمارت میں ایک چھوٹے پیمانے کا کاروبار بھی چلتا ہے۔گردونواح میں پائی جانے والی دکانوں اورسٹورزکے برعکس یہ کاروبار ایک عورت کی انتھک محنت اورلگن کی عکاسی کرتاہے۔ کیونکہ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے سلطانہ اسلم نے اپنی کامیابیوں کا سفر شروع کیا۔کسی چھوٹے کاروبارمیں پیش آنے والی روزمرہ کی مشکلات کی وجہ سے لوگ عمومی طورپر نااُمید ہوجاتے ہیں لیکن سلطانہ کے حوصلے بلند سے بلند ترہوتے گئے۔کیونکہ جب زندگی میں کچھ کھونے کے لئے باقی نہ رہے،توپھرایک اُمید ہی ہوتی ہے جو آپ کو اندھیروں میں بھی روشنی کی کرن دکھاتی ہے۔سلطانہ کی کہانی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

سلطانہ کے گھر والے اورسہیلیاں اُسے پیار سے "فائزہ "کہہ کربلاتی ہیں اِس لئے اُسنے اپنے کاروبار کے لئے بھی اِسی نام کا انتخاب کیا۔کسی چھوٹے شہرمیں رہنے والی ایک لڑکی کی طرح،فائزہ کا زندگی کا خواب بھی گھربسانا اورگھرداری سنبھالنا ہوسکتاتھا لیکن چھوٹی عمر میں ہی اُسکے والدین کی وفات اورچارچھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کے بوجھ نے اُس سے خواب دیکھنے کی آسائش چھین لی اور اُسے خود اپنے لئے کسی اورمنزل کا انتخاب کرنا پڑا۔

سلطانہ اپنی کہانی کچھ یوں سناتی ہیں:

"اِس سفر کا آغاز ایک فوٹو سٹوڈیو میں کام کرنے سے ہواجہاں میں نے بنیادی فوٹوگرافی،فوٹوپرنٹنگ اور البم بنانے کاہنر سیکھا۔اِسکے ساتھ ساتھ میں نے Adobe Photoshopeبھی سیکھا جسکے ذریعے میں فوٹوز ایڈٹ کیاکرتی تھی۔میں یہ ضرورکہنا چاہوں گی کہ ایک لڑکی ہوکر یہ منفرد کام کرنا میرے لئے بہت مشکل تھا کیونکہ یہ کام کرتے ہوئے مجھے اپنے رشتے داروں اورہمسایوں کے تلخ رویوں کا سامنا کرنا پڑا،اورطرح طرح کی باتیں بھی سننا پڑیں۔ ”

لیکن اِن سب مشکلات کا وہ ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہی کیونکہ اُس نے اپنے رشتے داروں یا محلے داروں کے لئے نہیں بلکہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کے لئے اِس راستے کا انتخاب کیاتھا۔فوٹو لیب میں کام کرتے ہوئے اُسنے وہ تمام تجربہ حاصل کرلیا جو ایک چھوٹے پیمانے کاسٹوڈیوقائم کرنے کے لئے کافی تھا۔اُسنے اپنی ساری جمع پونجی خرچ کرکے ایک چھوٹی سی جگہ کا بندوبست کیا اور پھر ایک سال بعد فنکا مائیکروفنانس بینک سے رابطہ کیا۔یہی وہ وقت تھا جب اُسنے مرحلہ وار اپنے کاروبار کوبڑھانے کا ارادہ کیا۔اُسنے سال2010 میں  20,000روپے کا پہلا مائیکرولون حاصل کیا۔کہنے کو تویہ رقم بہت زیادہ نہ تھی لیکن اِسی رقم نے اُسے آزادانہ طورپر کام کرنے کا حوصلہ دیا۔

"اللہ کے فضل سے میرے سٹوڈیو میں کام آنا شروع ہوگیا اور میں باآسانی فنکا کی اِقساط واپس کرنے کے قابل ہوگئی تھی۔اُنہی دنوں میں مجھے یہ احساس ہو اکہ میں اپنے کام کواوربھی بڑھا سکتی ہوں۔میں فنکا کے ریلیشن شپ آفیسر کی بہت ممنون ہوں کہ انہوں نے میرے کیس کو محنت سے سرانجام دیا۔اُنکا رویہ بہترین تھا اورانہوں نے میرے ہر سوال کاتفصیلی جواب دیا۔لون کا پراسیس کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے مجھے کاروبارسے متعلقہ قرضہ جات کی فراہمی کے حوالے سے فنکا کے تجربات سے بھی آگاہ کیا۔

فنکا بینک کم سے کم کاغذی کارروائی کے ساتھ وسیع پیمانے پر آسان اورفوری قرضہ جات کی فراہمی کو ممکن بناتاہے جیسا کہ سلطانہ اسلم نے بھی باآسانی فنکا بینک سے قرضہ حاصل کیا۔

نسواں قرضہ فنکاکا ایک ایسا بزنس لون ہے جسے خاص طورپرایسی خواتین کے لئے تشکیل دیا گیا ہے جو آسان شرائط وضوابط کے ساتھ فوری قرضہ حاصل کرکے اپنا کاروبار بڑھانے کی خواہشمند ہیں۔اِس قرضہ کو ایک بہترین موقع جانتے ہوئے سلطانہ نے بھی اپنا کاروبار وسیع کرنے کا فیصلہ کیا۔فوٹوگرافی سروسز کے لئے آنے والے کسٹمرز کی بڑھتی ہوئی تعداد کودیکھتے ہوئے سلطانہ نے سوچا کہ سائیڈ بزنس کے طورپرسٹیشنری کا ایک چھوٹا سیٹ-اپ قائم کرنا اُسکے روزگار میں اضافہ کرسکتا ہے۔اِس لئے سلطانہ نے فنکا سے ایک اورلون لینے کا ارادہ کیا اور اِس بار اُسنے 50,000روپے کا قرضہ باآسانی حاصل کرلیا۔کچھ عرصے کے بعد سلطانہ فوٹوگرافی سروسز کے ساتھ ساتھ سٹیشنری کا کاروبار بھی چلا رہی تھی۔اورِاِسی طرح فنکا بینک سے کچھ مزید لونز لینے کے بعد اُسنے ایک فوٹوسٹیٹ مشین بھی اپنے سٹوڈیومیں رکھ لی۔پھر تھوڑے وقت کے بعد سلطانہ نے اُسی جگہ ایک بیوٹی سیلون بھی کھول لیا۔

"اب ایک نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے کئی کاروبار ہیں جو میرے اورمیرے ملازمین کے لئے روزگارکا ذریعہ ہیں۔چونکہ میں نے ایک مشکل وقت گزارا ہے،اِس لئے میں یہ سمجھ سکتی ہوں کہ میرے ملازمین کے لئے یہ ملازمت کتنی ضروری ہے۔ ”

اِس معاشی خودمختاری نے سلطانہ کو اِس قابل بنا دیا کہ وہ اپنے کی کفالت اورتعلیم کا خرچ اُٹھانے کے ساتھ ساتھ اُنکی شادیاں بھی کرسکے۔سلطانہ کے عزیزواقارب نے اُسکے چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کی پیشکش بھی کی لیکن سلطانہ نے ایسے تعاون کی پیشکش کو فوری طورپرر دکردیا۔اوریوں اُس نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لئے بڑی بہن کے ساتھ ساتھ والدین کا کرداربھی ادا کیا۔

لسطانہ کے چھوٹے سے کاروبار سے 5دیگر افراد منسلک ہیں جن کے لئے یہ ملازمت ہی اُنکا واحد ذریعہ ِروزگار ہے۔

"وہ لوگ جو مجھے ایک ہزار روپیہ اُدھا دینے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے تھے،اب وہی لوگ مجھ پر لاکھوں روپے کا اعتبار کرتے ہیں کیونکہ میں اپنے علاقے میں سیونگ کمیٹیاں بھی ڈالتی ہوں۔میں نے لوگوں کا یہ اعتماد اپنی انتھک محنت اورفنکاکے تعاون کے ذریعے حاصل کیا اوراِس سارے سفر کے دوران اللہ کی رحمتیں میرے ساتھ رہیں۔

سطانہ،یعنی فائزہ (کیونکہ اُسے گھر والے پیارسے اِسی نام سے بلاتے ہیں) اب معاشی طورپر خودمختارخاتون ہے۔صرف 34سال کی عمر میں وہ ناصرف ایک کاروبار کی مالک ہے بلکہ ایک محبت کرنے والے شوہر اورتین بچوں کے ساتھ خوشگوار نجی زندگی بھی گزاررہی ہے۔فائزہ اب تک فنکا بینک سے 5لاکھ روپے کا قرض لے چکی ہے اور اب وہ اپنے فوٹوسٹوڈیو کو ” اپ گریڈ”کرنے کے لئے مزید قرضہ لینے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔

"بڑی مشینوں کے لئے بڑی سرمایہ کاری درکارہوگی اورمجھے یقین ہے کہ اِس حوالے سے فنکا بینک مجھے مکمل تعاون فراہم کرے گا ”

کچھ خواتین ٹیلرز اپنے کام کو سٹیچنگ یونٹ میں بدل رہی ہیں جبکہ کچھ ٹیچرز اپنی اکیڈمی یا سکول چلانے کا رادہ کررہی ہیں اورکچھ خواتین اپنا سیلون یاسٹیشنری سٹور کھولنے کافیصلہ کرچکی ہیں۔فنکا بینک ایسی تما م خواتین کے حوصلے بڑھا رہاہے اورایک فیملی ممبر کی طرح اُنہیں تعاون فراہم کررہاہے۔فنکا ہمیشہ سے اِس بات کویقینی بنارہاہے کہ اپنے کسٹمر زکا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا جائے۔اپنے اِسی عزم پر کاربند رہتے ہوئے فنکا نے کورونا کے دنوں میں اپنی لون پالیسیز کو اوربھی آسان کیا تاکہ کورونا سے متاثر ہونے والے کاروباری افراد کو زیادہ سے زیادہ تعاون فراہم کیاجاسکتے کیونکہ فنکاکے لئے سب سے اوّلین ترجیح،کسٹمرز ہی ہیں!